local news

کیا پاکستان اسرائیل کے خلاف عالمی قانونی محاذ پر پیچھے رہ گیا؟ – Pakistan

سینیٹر سید علی ظفر نے کہا کہ فارن کمیٹی میں مَیں نے سوال اٹھایا تھا کہ ساؤتھ افریقا ایسا کرسکتا ہے تو پاکستان کیوں نہیں کر سکتا۔ جس کا ابھی تک مجھے جواب ابھی تک نہیں ملا۔ سینیٹر افنان اللہ خان نے کہا کہ اس موضوع پر لا منسٹری سے بریفنگ نہیں لی، لیکن مجھے یقین ہے کہ ویو پوائنٹ یہی ہے کہ ہمیں اس کا حصہ بننا چاہیے تھا اور اگر نہیں بنا تو اب بھی بن سکتا ہے۔ سینیٹر ضمیہر گھمرو نے کہا کہ یہ تو انٹرنیشنل رجیم ہے، جب الاقوامی عدالت نے فیصلہ دیا اور اس پر بھی عمل نہیں ہوا۔

آج نیوز کے پروگرام اسپاٹ لائٹ میں میزبان منیزے جہانگیر نے سوال کیا کہ اسرائیل کے وزیراعظم کے خلاف پاکستان حصہ بنے گا؟ جیسے ترکی بنا، اس کی کیا وجہ ہے۔ اس پر گفتگو کرتے ہوئے سینیٹر افنان اللہ خان نے کہا کہ اس موضوع پر لا منسٹری سے بریفنگ نہیں لی، لیکن مجھے یقین ہے کہ ویو پوائنٹ یہی ہے کہ ہمیں اس کا حصہ بننا چاہیے تھا اور اگر نہیں بنا تو اب بھی بن سکتا ہے اور غزہ کے معاملے پر میں سمجھتا ہوں جس قسم کا ظلم وہاں ہو رہا ہے اب معاملہ اس چیز سے آگے نکل چکا ہے، ظلم روکنا ہے تو ظالم کے ہاتھ روکنا ہوں گے۔

افغانستان کے حوالے سے سوال پر سینیٹر افنان اللہ خان نے کہا کہ تمام مسلمانوں کے ساتھ ہمارا رشتہ ہے لیکن اگر کوئی پاکستان کے بارے میں برا سوچتا ہے، پاکستان نے جنھیں اپنے پاس رکھا وہ پاکستان کو گالیاں دیں، سوشل میڈیا میں کئی ویڈیوز موجود ہیں، حالانکہ میں نے خود اس بات کو اسپورٹ کیا کہ انھیں باعزت طریقے سے واپس بھیجا جائے، یہ سارے مسائل ہیں اپنی جگہ پر۔

فلسطینیوں کے حوال سے انھوں نے کہا کہ پاکستان کا ایک قانون ہے، ہمیں وہاں انٹیلی جنس کے معاملات بہتر کرنے چاہییں، اسلحہ بھیجنا چاہیے اور انھیں ٹریننگ دینی چاہیے، آئی ایم ایف کے معاملے کوسیدھا رکھیں، ہم اس میں ہھنسے ہوئے ہیں اور اس سے اپنے آپ کو نکالنا ہے، امریکی کانگریس کے لوگوں نے اچھی باتیں کہیں یا نہیں کہیں، لیکن مسلمان اور ایک انسانی طور پر ان کی مدد کی جائے اور روکا جائے اور اگر ہم اسے نہیں روکتے تو خالی بات کرنے کا کوئی فائدہ نہیں۔

سینیٹر افنان اللہ نے یہ بھی کہا کہ امریکا سے آنے والے بہت زیادہ افراد ایسے بھی ہوتے ہیں جنھوں نے پاکستان کو بہت زیادہ امداد بھی دی ہوتی ہے، یونیورسٹیز وغیرہ میں، کچھ ایسے بھی پاکستانی امریکی اوریجن ہیں جو پاکستان کے اندر ان کا عمران خان سے ملنا میرا نہیں خیال کوئی بڑی بات ہے۔

عمران خان سے ملاقات کے اوپن ٹرائل کے حوالے سے سوال کے جواب میں انھوں نے کہا کہ عمران خان کے وکیل وہاں موجود ہوتے ہیں، ان کی سیفٹی کے بھی ایشوز ہیں، ان چیزوں کو سامنے رکھ کر صورت حال کو دیکھنا چاہیے، میاں نواز شریف کے خلاف جو کیس تھا وہ بھی اٹک قلعے میں چلا تھا، اٹک قلعے سے تو اڈیالہ جیل بہت بہتر ہے۔

پی ٹی آئی کے سینیٹر سید علی ظفر نے کہا کہ میں سینیٹ کی فارن افیئر کمیٹی کا بھی ممبر ہوں اور کمیٹی میں نے پوچھا کہ کہ ساؤتھ افریقا نے باقاعدہ ایک پٹیشن فائل کی جس کے اوپر بات ہوئی اورآرڈر بھی باس ہوئے تو کیا پاکستان اس کا حصہ بنا اور نہیں بنا تو کیوں نہیں بنا جس کا جواب مجھے یہ ملا کہ فی الحال پاکستان اس کا حصہ نہیں بنا یہ ایک بین الاقوامی ایشو ہے کہ اگر ساؤتھ افریقا ایسا کر سکتا ہے تو پاکستان کیوں نہیں کر سکتا۔ سوال میں نے اٹھایا جس کا ابھی تک جواب ابھی تک نہیں ملا۔

عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان برف پگھلنے کے سوال پر انھوں نے کہا کہ میں اسے خبر تک ہی کہوں گا کیوں کہ جب میری عمران خان سے ملاقات ہوئی تو انھوں نے اس حوالے سے کچھ بتایا نہیں، میں تو یہی کہوں گا یہ خبر ہی ہے اور اس میں فی الحال سچائی نہیں ہے جہاں تک کچھ لوگ ہیں وہ اپنی ایک انفرادی کوشش کررہے ہیں۔ ان کا پی ٹی آئی سے کوئی تعلق نہیں اور نہ کوئی ڈائریکشن نہیں ہے۔

ماضی کی ملاقاتوں کے حوالے سے سوال کے جواب میں سینیٹر سید علی ظفرنے کہا امریکی بزنس مین اور ڈاکٹروں کی ملاقات کے بارے میں مجھے نہیں بتایا گیا اس میں کوئی شک نہیں کہ عمران خان اور ان کی فیملی کے ساتھ ناانصافی ہو رہی ہے، ان کا ملاقات کا حق ہے کیوں نہیں ملنے دیا جا رہا ہے، یہ ان کے بنیادی حقوق کے خلاف ہے، انتظامیہ زیادتی کر رہی ہے، ملنے نہیں دیا جا رہا۔ سلمان اکرم راجہ کے بیان پر میں نے مذمت بھی کی ہے اس طرح کا طریقہ کار میں ہمیں اتحاد کی ضرورت ہے، لسٹ روکی بھی جاتی ہے اور مختلف لوگ لسٹ بنا کر بھیجتے بھی ہیں، کبھی کسی کو بھیج دیا جاتا ہے کبھی کسی کو نہیں جانے دیا جاتا اور مجھے تو لسٹ کے بغیر جانے دیا جاتا ہے۔

فرحت اللہ بابر کی ایف آئی اے میں انکوائری کے حوالے سے انھوں نے کہا کہ ایف آئی اے پرائیویٹ شکایت پر فی الفور ایکشن میں آ جاتی ہے کہ، چھ سال سے زیادہ انکوائری تو ہو نہیں سکتی کسی قسم کی، پندرہ سال تو بہت دور کی بات ہے وہ غئر قانونی ہے، فرحت اللہ بابر بڑے نفئیس انسان ہیں، وہ ایک پرائیویٹ پرسن ہیں، بے شک سینیٹر ہوں ان کے خلاف ایف آئی اے کی انکوائری کا کوئی اختیار نہیں ہے۔ اس قسم کے ٹیکس کے معاملوں میں انکوائریاں کرنا ایف آئی کا حق نہیں ہے، منی لانڈرنگ کا ایشو ہو تو کی جا سکتی ہے۔ اس میں نظر یہ آتا ہے کہ یہ جو کارروائی ہے بدنیتی پر مبنی ہے، صرف تنگ کرنے کے لیے کی گئی وہ ان لوگوں کے لیے آواز اٹھاتے ہیں جن کے لیے کوئی آواز نہیں اٹھاتا۔

آج نیوز کے پروگرام اسپاٹ لائٹ میں پیپلز پارٹی کے سینیٹر ضمیر گھمرو نے بھی گفتگو کی اور انھوں نے مسئلہ فلسطین کے حوالے سے گفتگو میں کہا کہ بین الاقوامی عدالت میں ساؤتھ افریقا گیا تھا، بین الاقوامی عدالت میں تو ریلیف ملا تھا۔ نیشنل اسٹیٹ اپنے مفاد میں سوچتا ہے یہ تو پبلک ویو کے مطابق ہوتا ہے کہ آپ پارٹی بن جائیں۔

انھوں نے کہا کہ یہ تو انٹرنیشنل رجیم ہے، آپ نے دیکھا کہ بین الاقوامی عدالت نے فیصلہ دیا اور اس پر بھی عمل نہیں ہوا۔ یہاں تک کے عرب لیگ کے ممالک بھی اس میں شامل نہیں ہوئے۔ 1973 میں جب اسرائیلی وار ہوئے تو پاکستان نے اپنے طیارے بھیجے تھے، بین الاقوامی رجیم فلسطینیوں کے بارے میں بہت کمزور ہے۔

سینیٹر ضمیر گھمرو نے کہ کہ جب 1979 میں افغانستان کی حکومت آئی تھی تو اس کے بعد ہم نے طالبان کو اسپورٹ کیا، وہاں سے لوگ آئے اس وقت مطالبات یہ ہوتے تھے کہ ان کو واپس بھیجا جائے، اس میں ان کی تعداد بڑھی ان کو ہوسٹ کیا گیا، اب ان کی تعداد زیادہ ہے تو ان کو واپس بھیجا ہے، اس میں ظاہر ہے کہ فارن پالیسی بھی ہوتی ہے دیگر ایشوز بھی ہیں۔

انھوں نے کہا کہ حکومت کی پالیسی نہیں بنی لیکن اصولی طور پر یہ طے ہے کہ ان کو واپس بھیجا جائے، حکومت ہر چھ ماہ بعد نوٹیفکیشن نکالتی ہے جو انٹرنیشل ہے اور یو این او کے لوگ بھی موجود ہوتے ہیں، افغانستان کے حوالے سے پالیسی پہلے ہی بنانی چاہیے تھی۔ اصولی طور پر اس سے اختلاف نہیں کہ ان کو واپس جانا چاہیے۔ پروسیجر کے خلاف ہے۔

سینیٹر ضمیر گھمرو نے کہا کہ ماضی میں بھی جو سیاستدان آئے ان کے خلاف بھی کیسز ہوئے ہیں، ہماری لیڈر شپ کے خلاف بھی ہوا، یہ اب عمران خان کے دور سے شروع ہوا ہے کہ ان کو رائیٹس نہیں دیے گئے، اب ان کو رسائی مل رہی ہے شاید مس اندر اسٹینڈنگ ہوئی ہے، اوپن ٹرائل ہونا چاہیے۔

#کیا #پاکستان #اسرائیل #کے #خلاف #عالمی #قانونی #محاذ #پر #پیچھے #رہ #گیا #Pakistan

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button

Adblocker Detected

Please Turn off Ad blocker