local news

Chitral Times – جامعہ چترال کے سابق پراجیکٹ ڈائیریکٹر کی جانب سے  دیا گیا بیان بدنیتی اور غلط بیانی پر مبنی ہے۔یونیورسٹی انتظامیہ 

جامعہ چترال کے سابق پراجیکٹ ڈائیریکٹر کی جانب سے  دیا گیا بیان بدنیتی اور غلط بیانی پر مبنی ہے۔یونیورسٹی انتظامیہ

چترال (پ۔ر) جامعہ چترال کے پبلک ریلیشنز آفیسر کی جانب سے جاری کردہ ایک پریس ریلیز میں سابق پراجیکٹ ڈائریکٹر انجنیئر محمد ضیاء اللہ کی جانب سے ایک مقامی آنلائین اخبار میں یونیورسٹی انتظامیہ پر عائد کردہ الزامات کی یکسر نفی کردی گئی ہے۔ تفصیلات کے مطابق سابق پی ڈی کے الزامات کو بے بنیاد ثابت کرنے کیلئے نکتہ وار جواب دیا گیا ہے۔ پریس ریلیز کے مطابق جب جامعہ چترال کی پی سی ون تیار کی جارہی تھی اس وقت صوبائی حکومت نے چارسو کنال زمین کی خریداری کیلئے مبلغ 880 ملین روپے اے ڈی پی میں منظور کئے تھے جس کی بنیاد پر ضلعی انتظامیہ کی وساطت سے مقررہ جگہے پر سیکشن فور نافذ کیا گیا تھا اور یہی دستاویزات پی ایس ڈی پی کے پہلے پی سی ون کے ساتھ منسلک تھے اس لئے یونیورسٹی کے بانی (اے ڈی پی) پراجیکٹ ڈائیریکٹر پر غلط بیانی کا الزام درست نہیں۔

 

جہاں تک زمین کی خریداری کا تعلق ہے 2021 کے آواخر میں صوبائی حکومت کی جانب سے زمین کی خریداری کیلئے فنڈز کے اجراء پر پیش رفت کے پیش نظر پی ایس ڈی پی پراجیکٹ ڈائیریکٹر کا عہدہ مشتہر کیا گیا جس پر ضابطے کی کاروائی کے بعد انجینئر ضیاء اللہ کی تعیناتی کی سفارش کی گئی۔ درین اثناء صوبائی حکومت نے فنڈز جاری کئے جنہیں فوراً اپریل 2022 میں ضلعی انتظامیہ کے اکاونٹ میں منتقل کیا گیا۔ چونکہ ابھی زمین کے حصول کا عمل مکمل نہیں ہوا تھا اس لئے پی ڈی کی تعیناتی کا حکم نامہ مؤخر کیا گیا تاکہ زمین کے حصول کے بعد وہ فوراً کام کا آغاز کرسکے لیکن مذکورہ امیدوار نے اپنے قریبی بااثر شخصیات کے ذریعیمتعلقہ حکام سے یونیورسٹی انتظامیہ پر دباؤ ڈلوا کر اپنی تعیناتی کا حکم نامہ جولائی 2022 جاری کروایا۔

 

تعیناتی کا حکم نامہ تھماتے ہوئے اس وقت کے وی سی نے اسے زمین کی حصول کا کام جلد تکمیل تک پہنچانے کا ٹاسک دیا لیکن فنڈز کے اجراء کے بعد جو کام عموماً تین چار ماہ میں مکمل ہوتا ہے اسے مذکورہ پی ڈی نے مخلتف تاخیری حربوں سے تقریباً ڈیڑھ سال تک طول دیا۔ بلکہ مذکورہ زمین کے کچھ حصے کا حصول ابھی تک مکمل نہیں ہوا ہے۔ حالانکہ تمام مالکان کو ادآئیگی بہت پہلے ہوچکی ہے۔ زمین کے سابق مالکان کی طرف سے مبینہ رخنہ ڈالنے کا ذکر کرتے ہوئے پریس ریلیز میں کہاگیا ہے کہ مذکورہ بندہ بارہا یونیورسٹی حکام کے سامنے کہہ چکا ہے کہ پی ڈی نے اسے مزید پیسے دینے کا وعدہ کیا تھا، حالانکہ اس کے پاس ایساکوئی اختیار ہی نہیں تھا۔اور نہ ہی اس کیلئے کوئی فنڈ یونیورسٹی کے پاس موجود ہیں۔

 

چترال کے خراب موسم کا بار بار حوالہ دینے پر ایک میٹنگ میں ایچ ای سی کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر نے موصوف کو ڈانٹ پلاتے ہوئے ریمارکس دئے تھے کہ چترال مریخ پر نہیں ہے، ساتھ ہی آزاد کشمیر کے ایک پراجیکٹ پر پراگریس کے فوٹو بھی دکھائے جہاں کے پی ڈی نے محض تین ماہ کے اندر گراونڈ فلور کے فریم اسٹرکچر کو مکمل کیاتھا جبکہ جامعہ چترال کے پراجیکٹ ڈائیریکٹرصاحب نے اپنی تعیناتی کے ڈھائی سالہ دور میں اس وقت تک ڈی پی سی بھی مکمل نہیں کروا سکے تھے۔

 

پریس ریلیز میں موقف اختیار کیاگیا ہے۔ کہ اضافی چارج کے باوجود پروفیسر ڈاکٹر محمد شہاب جامعہ چترال کو خصوصی توجہ دے رہے ہیں ان کے دور میں اب تک جامعہ کے کئی دیرینہ مسائل حل ہوچکے ہیں۔ اس لئے ان پر یونیورسٹی کو وقت نہ دینے کا الزام سراسر غلط ہے۔ پراجیکٹ پر سست روی پراجیکٹ ڈائریکٹر کی نااہلی یا عدم دلچسپی کا شاخسانہ ہے، یہ بات سبھی جانتے ہیں کہ فنانشل پراگریس کا انحصار فزیکل پراگریس پر ہوتا ہے کام کئے بغیر کوئی بل پاس نہیں ہوسکتا، دوسری صورت یہ الزام تبھی درست ہوتا اگر کسی ٹھیکیدار کا کوئی بل زیر التوا ہوتا۔جبکہ تمام بل پراجیکٹ ڈائیریکٹر کے دفتر کی وساطت سے یونیورسٹی کے دفاتر میں پہنچنے کیدو تین ہفتوں کے اندر ٹھیکیداروں کو ادائیگی ہوتی رہی ہے۔ پی ڈی نے غلط بیانی سے کام لیتے ہوئے اپنی ناقص کارکردگی کا بوجھ دوسروں پر ڈالنے کی ناکام کوشش کی ہے۔

 

پراجیکٹ ریویو میٹنگ کے حوالے سے لگائے گئے الزام پر روشنی ڈالتے ہوئے پریس ریلیز میں کہاگیا ہے کہ مذکورہ ریویو میٹنگ ستمبر 2024 میں منعقد ہوئی تھی، جس میں پراگریس پر ہر طرف سے سوالات اٹھائے جانے پر پی ڈی کو جب صاف نظر آنے لگا کہ شاید اگلے سہ ماہی کیلئے اسے ملازمت میں توسیع نہ مل سکے گی۔تو اس نے جان بوجھ کر ایک اعلی سطحی میٹنگ میں نامناسب رویہ اپناتے ہوئے بدمزگی پیدا کرنے کی کوشش کی تاکہ ناقص کارکردگی پر ملازمت میں توسیع نہ ملنے کی صورت میں وہ اسے وی سی کی طرف سے انتقامی کاروائی گردان سکے۔ لیکن وی سی نے نہ صرف میٹنگ کے دوران تحمل اور رکھ رکھاؤ کا مظاہرہ کیا بلکہ بڑے پن کا مظاہرہ کرتے ہوئے اگلے سہ ماہی کیلئے خصوصی ٹارگٹ کے ساتھ یکے بعد دیگرے دو دفعہ مزید توسیع بھی دیا، لیکن پی ڈی کسی بھی عمومی یا خصوصی ٹارگٹ کو حاصل نہ کرسکے یہاں تک کہ سول ورک پر کام شروع ہونے کے سال سے زیادہ عرصہ گزرنے تک وہ سائٹ پر اپنے اور اپنی اسٹاف کیلئے دفاتر کو درست طریقے سے تعمیر نہیں کراسکے حالانکہ یہ بی او کیو کا حصہ تھا۔ چونکہ موصوف کو پراجیکٹ سے زیادہ یونیورسٹی کے اندرونی معاملات میں دلچسپی تھا۔اس لئے وہ شاید اپنا دفتر سائٹ پر منتقل کرنا ہی نہیں چاہتے تھے۔

 

پراجیکٹ ملازمین کا ذکر کرتے ہوئے پریس ریلیز میں وضاحت کی گئی ہے کہ جامعہ چترال کے پراجیکٹ پر عملدرآمد میں غیر معمولی تاخیر کی بناپر پراجیکٹ کے آٹھ میں سے صرف دو اجزاء پر کام کی اجازت مل چکی ہے۔ اور پراجیکٹ ڈائیریکٹر ابھی تک کنسلٹنٹ کی کل منظور شدہ نفری کو بھی پراجیکٹ سائٹ پر حاضر کرنے میں ناکام رہاہے، جبکہ ان کو اس سلسلے میں پوری ادائیگی کی گئی ہے۔ مذکورہ ملازمین کی تعیناتی کے بعد ہی مزید ضرورت پڑنے کی صورت میں اضافی بھرتی کا جواز بنتاہے۔

 

پراجیکٹ پر مجموعی کارکردگی کا ذکر کرتے ہوئے پریس ریلیز میں بتایا گیا ہے کہ فی الحال پراجیکٹ پر دو ٹھیکیدار کام کررہے ہیں پہلے ٹھیکیدار نے ورک پلان کے مطابق دوسال میں کام مکمل کرنا ہے اور دوسرے ٹھیکیدار نے ڈیڑھ سال میں۔ لیکن مارچ 2024 کے شروع سے مارچ 2025 کے اختتام تک عرصہ تیرہ (13) ماہ گزرنے کے بعد یعنی پہلے ٹھیکے کے مقررہ وقت تکمیل کا نصف سے زائد عرصہ اور دوسرے ٹھیکے کے مقررہ وقت تکمیل کا دوتہائی سے زیادہ وقت گذرنے کے بعد سابق پراجیکٹ ڈائیریکٹر دونوں پراجیکٹ پر بیس فیصد پراگریس بھی حاصل نہیں کراسکے۔

 

پریس ریلیز کے آخر میں عزم کا اظہار کیا گیا ہے کہ یونیورسٹی انتظامیہ اپنی ذمہ داریوں سے مکمل آگاہ ہے۔ غلط بیانی اور علاقائیت پر مبنی منفی ڈپلومیسی کے ذریعے اس پراجیکٹ میں رخنہ ڈالنے کی ہر کوشش کو ناکام بنایا جائے گا۔ اور بھرپور تیاری کے ساتھ عدالت میں اپنا موقف بھی ثابت کیا جائے گا۔

 

 

chitraltimes university of chitral under construction building 2

chitraltimes university of chitral under construction building 3

 

chitraltimes university of chitral under construction building 4

 

chitraltimes university of chitral under construction building 1

 

 

 


Post Views: 162


#Chitral #Times #جامعہ #چترال #کے #سابق #پراجیکٹ #ڈائیریکٹر #کی #جانب #سے #دیا #گیا #بیان #بدنیتی #اور #غلط #بیانی #پر #مبنی #ہےیونیورسٹی #انتظامیہ

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button

Adblocker Detected

Please Turn off Ad blocker