
شعورِ گُم گشتہ – ڈاکٹر شاکرہ نندنی
“شعور وہ چراغ ہے جو تاریک راہوں میں منزل کی نشاندہی کرتا ہے؛ جس دل میں یہ چراغ نہ ہو، وہ خواہ کتنی ہی روشنیوں میں ہو، اندھیروں کا اسیر رہتا ہے۔”
— ڈاکٹر شاکرہ نندنی
ہمارا معاشرہ آج جس زبوں حالی کا شکار ہے، اس کی بنیادی وجوہات میں سے ایک بڑی وجہ عوام میں شعور اور آگاہی کی شدید کمی ہے۔ یہ وہ خلا ہے جس نے ہمارے فکری، اخلاقی اور معاشرتی ڈھانچے کو کھوکھلا کر دیا ہے۔ آج کے انسان کے پاس علم کا انبار ہے مگر شعور کی دولت نایاب ہو چکی ہے۔
شعور وہ چراغ ہے جس کی روشنی میں فرد نہ صرف اپنے حقوق اور فرائض کو پہچانتا ہے بلکہ اجتماعی بہتری کے لیے بھی اپنا کردار ادا کرتا ہے۔ افسوس کہ ہمارے دیس میں تعلیم کے فروغ کے باوجود شعوری بیداری ایک خواب بن کر رہ گئی ہے۔ تعلیمی ادارے ڈگریاں تو بانٹ رہے ہیں، مگر فہم، تدبر اور حقیقت پسندی کی تربیت دینے میں ناکام ہو چکے ہیں۔
ہم دیکھتے ہیں کہ سڑکوں پر قانون شکنی ہو، سرکاری دفاتر میں بدعنوانی ہو یا عام زندگی میں وعدہ خلافی، یہ سب بے شعوری کی واضح مثالیں ہیں۔ ایک فرد جب اپنے ذاتی مفاد کو قومی مفاد پر فوقیت دیتا ہے تو دراصل وہ اجتماعی شعور کے فقدان کا مظاہرہ کر رہا ہوتا ہے۔ بدقسمتی سے ہماری اکثریت اپنے حقوق تو خوب جانتی ہے مگر فرائض سے مکمل طور پر غافل ہے۔
سماجی میڈیا کے پھیلاؤ نے بھی اس بے شعوری کو مزید اجاگر کیا ہے۔ بغیر تحقیق کے خبریں پھیلانا، دوسروں کی عزت و آبرو کو مجروح کرنا، اور جھوٹے پروپیگنڈوں کا شکار ہونا عام روش بن چکی ہے۔ اس ساری صورتحال کا بنیادی سبب یہ ہے کہ ہم نے تنقیدی سوچ اور سچ کی جستجو کو اپنے کردار سے خارج کر دیا ہے۔
اگر شعور ہوتا تو ہم جانتے کہ اختلاف رائے دشمنی نہیں، بلکہ ترقی کا زینہ ہے۔ اگر آگاہی ہوتی تو ہم سمجھتے کہ ووٹ ایک امانت ہے، جس کا غلط استعمال قوموں کو تباہی کے دہانے پر لا کھڑا کرتا ہے۔ اگر بیداری ہوتی تو ہم اپنی زمین، اپنے پانی، اپنے ماحول کی حفاظت کو اولین فرض سمجھتے۔ لیکن المیہ یہ ہے کہ ہم محض وقتی جذبات میں بہہ کر فیصلے کرتے ہیں اور بعد میں انہی فیصلوں پر نوحہ کناں نظر آتے ہیں۔
شعور کی کمی کا ایک اور بھیانک پہلو یہ ہے کہ عوام آسانی سے فریب کھا جاتے ہیں۔ جھوٹے لیڈروں کے خوش کن نعروں، مذہبی جذبات کے استحصال، اور لسانی تعصبات کے جال میں پھنستے چلے جاتے ہیں۔ وہ حق اور باطل کے مابین تمیز کرنے کی صلاحیت سے عاری ہو چکے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ قوم بطور مجموعی بار بار ایک ہی گڑھے میں گرتی ہے اور ہر زوال کو تقدیر کا لکھا سمجھ کر قبول کر لیتی ہے۔
شعور کی بیداری کوئی آسان عمل نہیں۔ یہ ایک طویل، محنت طلب اور صبر آزما عمل ہے۔ تعلیمی نظام میں اصلاحات، آزاد اور ذمے دار ذرائع ابلاغ، اور فکری مکالمے کے فروغ کے ذریعے ہی اسے ممکن بنایا جا سکتا ہے۔ ہمیں اپنے بچوں کو محض کتابی علم ہی نہیں بلکہ سوال اٹھانے، سچائی کو پرکھنے اور دلیل سے بات کرنے کی تربیت دینی ہو گی۔
بیداریٔ شعور کا سفر ہر فرد سے شروع ہوتا ہے۔ جب ہر انسان اپنی ذات کے اندر جھانک کر خود احتسابی کرے گا، جب ہر شخص اپنی ذمہ داریوں کا احساس کرے گا، تبھی ایک روشن، مہذب اور ترقی یافتہ معاشرہ جنم لے سکے گا۔ ورنہ شعورِ گم گشتہ کا یہ نوحہ نسل در نسل ہمیں رسوائی اور پستی کی طرف دھکیلتا رہے گا۔
Post Views: 49
#Chitral #Times #شعور #گم #گشتہ