
قاقلشت کی تباہی میں ہمارا کردار اور مستقبل کا لائحہ عمل ۔ تحریر: احتشام الرحمن
ایک زمانہ وہ تھا جب قاقلشت سے گزرتے ہوئے آپ قدرتی مناظر سے لطف اندوز ہونے کے ساتھ ساتھ مقامی روایات کا نظارہ بھی کرتے تھے۔ مقامی لوگ بھیڑ بکریاں چرانے کے لئے آتے تھے۔ اس طرح آپ کو قدرت کے نظاروں کے ساتھ مقامی روایات کو بھی قریب سے دیکھنے کا موقع ملتا تھا۔ لوگ پیادہ چل کر پکنک منا رہے ہوتے تھے۔ اس تنگ زمانے میں بھی لوگ کھانے سے زیادہ سیر و تفریح کا لطف اٹھا رہے ہوتے تھے۔ اس زمانے میں کھانے کے لئے گھر کی بنی ‘چترالی براٹ یا چائے ٹیکی’ ہوتی تھی۔ لیکن آج کل بدقسمتی سے سیر تفریح اور بازاری کھانے پینے کو لازم و ملزوم بنایا گیا ہے۔
آج کے ‘تعلیم یافتہ لوگوں کے ترقی یافتہ دور’ میں قاقلشت جا کر ایک عجیب و غریب منظر دیکھنے کو ملتا ہے۔ لوگوں کا جم غفیر اور گاڑیوں کی کانوائیاں ہر طرف نظر آتے ہیں۔ لوگوں نے معاشی ترقی اتنی کر لی ہے کہ کوئی بھی بغیر گاڑی اور بائیک کے نہیں آتا ہے۔ تعلیم یافتہ اتنے ہوئے ہیں کہ عام لوگوں کی طرح تعلیمی اداروں کے لوگ بھی یہاں آکر پکنک منا کر پلاسٹک کے ریپرز اپنے ساتھ واپس لے جانے میں شرم محسوس کرتے ہیں۔ ماڈرن اتنے ہوگئے ہیں کہ خواتین کو اس جگہ کا لطف اٹھانے کے لئے کوئی سپیس ہی نہیں ہے۔ اگر خواتین آتی بھی ہیں تو اس میں ‘ڈگری یافتہ اور ماڈرن’ لونڈے لپاڑے ان کے لئے سکوں کا سانس لینے کی گنجائش تک نہیں چھوڑتے ہیں۔
بحیثیت انسان ہم نے اس خوبصورتی کو نقصان پہنچانے پر تلے ہوئے ہیں جیسے کہ مہینہ بعد ہی اس علاقے کو چھوڑ کر جا رہے ہوں۔ اس بے رخی میں لوگوں کے ساتھ ساتھ انتظامیہ بھی برابر کا شریک ہے۔ اگر اس کی طرف توجہ نہ دی گئی تو کچھ سال بعد یہ جگہ گندگی کا ڈھیر بن کر تباہ ہو گی اور لوگ اس تفریحی مقام کے لئے ترس جائیں گے۔ اس سلسلے میں لوگوں اور انتظامیہ کو مل کر کوئی لائحہ عمل طے کرنا ہوگا تاکہ اس کی خوبصورتی کو کوئی نقصان نہ پہنچے۔ اس سلسلے میں چند باتیں قابل غور ہیں۔
بے جا اور بے تحاشا کھیل تماشا اور ٹورنامنٹس وغیرہ کا جو سلسلہ شروع ہوا ہے اس پر مکمل پابندی لگانی چاہئے۔ اس سلسلے میں ضلعی انتظامیہ کو ٹھوس اقدامات اٹھانے ہوں گے نہ کہ فیس بکی پوسٹس جس میں “بحکم ڈپٹی کمشنر” تو ہوتا ہے لیکن کوئی عملی کام نہیں۔
گاڑیوں کو قاقلشت میڈوز کے اندر جانے کی اجازت نہیں ہونی چاہئے۔ ان کو مین روڈ/بلیک ٹاپنگ تک محدود کر کے پارک کرنا چاہئے۔ گاڑیوں کی وجہ سے قدرتی ہریالی خراب ہو رہی ہے۔ لوگ اگر قدرتی حسن کا لطف اٹھانا چاہتے ہیں تو پیدل چلیں تاکہ نیچر بھی محفوظ رہے اور پیدل چل کر لوگوں کی صحت پر بھی ان خوبصورت مناظر اور صاف ستھری ہوا کا مثبت اثر پڑے۔
جو لوگ پکنک کی غرض سے آتے ہیں ان کو مژگول پل اور زیارت کے مقام پر روک کر پلاسٹک کی ریپرز والی چیزیں لے جانے سے منع کیا جائے۔ دوران جشن تبلیغی جماعت والے اہم کردار ادا کر سکتے ہیں کیونکہ چترال میں تبلیغی اجتماع کے بعد پولو گراونڈ کی صفائی کا منظر قابل دید تھا۔ وہ وہاں جا کر لوگوں کو ‘صفائی نصف ایمان’ والی حدیث کی تعلیم دیں تاکہ اس کا لوگوں کی آنے والی زندگی میں بھی مثبت اثر پڑے۔ اس کے باوجود بھی اگر کچھ ‘انسان نما جانور’ گندگی پھیلائیں تو اس کے بعد اس کی صفائی میں تبلیغی جماعت، اسماعیلی والنٹیرز اور مقامی نوجوان اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ اگر چہ یہ کام ضلعی انتظامیہ کا ہے لیکن میں نے یہاں جان بوجھ کر ان کا ذکر نہیں کیا ہے کیونکہ اس طرح کے کاموں میں ان کی کارکردگی کا دائرہ کار فیس بک پوسٹس کی حد سے زیادہ نہیں ہوتا ہے۔
قاقلشت میں پکنک کی غرض سے آنے والے لوگوں کے لئے تین الگ الگ زونز بنانے چاہئے:
الف: خواتین کے لئے الگ ایک مختص جگہ
ب: فیملی کے ساتھ آنے والوں کے لئے الگ اسپیس
ج: لونڈے لپاڑوں کے لئے بالکل الگ زون
جس طرح ان قدرتی مناظر کا لطف اٹھانا مرد اپنا پدری حق سمجھتے ہیں یہ اتنا ہی خواتین اور بچیوں کے لئے ضروری ہے۔ لوگوں کی بے ہودگیوں کی وجہ سے خواتین تو دور کی بات لوگ اپنی فیملیوں کے ساتھ قاقلشت جانے سے گریز کرتے ہیں۔ اس سلسلے میں ضلعی انتظامیہ اور پولیس کو مل کر پٹرولنگ کا کوئی لائحہ عمل بنانا چاہئے تاکہ خواتین کے لئے بھی اس پر فضا مقام میں آزادی کی چند سانسیں لینے کا موقع مل سکے۔
جشن قاقلشٹ کو منظم طریقے سے کرانے کے بعد ایک کیٹل شو کا بھی انعقاد کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ اس سے مقامی لوگوں میں جانوروں کی افادیت اور مقامی لوک روایات کی اہمیت اجاگر ہوگی۔ اس میں بھیڑ، بکری، بیل، گائے اور گھوڑوں کا شو منعقد کرانے سے پرانی روایت بھی زندہ ہوگی جب مقامی لوگ جانوروں کے ریوڑ لے کر یہاں آتے تھے۔ اس سے اس بات کا بھی اندازہ لگانے میں آسانی ہوگی کہ یہ ڈنگر زیادہ مہذب ہیں یا پھر آج کے دور کا ترقی یافتہ انسان؟ کیا یہ جانور اپنے متعین راستوں پر چلیں گے یا یہ بھی انسانوں کی طرح کئی راستے بنا کر قدرتی ہریالی کو برباد کریں گے؟
مختصرا یہ کہ اس سلسلے میں ضلعی انتظامیہ اور ٹورزم ڈیپارٹمنٹ کو چاہئے کہ وہ جشن قاقلشٹ کے نام پر سرمایہ ضائع کرنے کی بجائے اس جگہ کو سال بھر کے لئے پکنک سپاٹ بنانے کے لئے شارٹ ٹرم اور لانگ ٹرم پالیسیاں بنائیں۔ اس سے مقامی لوگوں کی اکثریت کو سماجی و معاشی فائدہ ہوگا اور اس جگہ کی خوبصورتی بھی برقرار رہے گی۔ صوبہ کے ‘تیسرے بڑے عہدے’ کی مالکن، ڈپٹی اسپیکر صاحبہ، کو بھی پرانے پلوں کے افتتاح اور اپنے نام کی تختیاں لگانے سے فرصت ملے تو قاقلشت کی فلاح کے لئے ٹھوس اقدامات اٹھانے کی طرف بھی توجہ دیں۔\
Post Views: 12
#Chitral #Times #قاقلشت #کی #تباہی #میں #ہمارا #کردار #اور #مستقبل #کا #لائحہ #عمل #تحریر #احتشام #الرحمن